یوم پیدائش 12 مارچ 1959
اب اپنی ذات کا عرفان ہونے والا ہے
خدا سے رابطہ آسان ہونے والا ہے
گنوا چکا ہوں میں چالیس سال جس کے لیے
وہ ایک پل مری پہچان ہونے والا ہے
اسی لیے تو جلاتا ہوں آندھیوں میں چراغ
یقین ہے کہ نگہبان ہونے والا ہے
اب اپنے زخم نظر آ رہے ہیں پھول مجھے
شعور درد پشیمان ہونے والا ہے
مرے لیے تری جانب سے پیار کا اظہار
مرے غرور کا سامان ہونے والا ہے
یہ چوٹ ہے مری مشکل پسند فطرت پر
جو مرحلہ تھا اب آسان ہونے والا ہے
اگر غرور ہے سورج کو اپنی حدت پر
تو پھر یہ قطرہ بھی طوفان ہونے والا ہے
بہت عروج پہ خوش فہمیاں ہیں اب اس کی
وہ عن قریب پشیمان ہونے والا ہے
تو اپنا ہاتھ مرے ہاتھ میں اگر دے دے
تو یہ فقیر بھی سلطان ہونے والا ہے
چراغ دار کی لو ماند پڑ رہی ہے ندیمؔ
پھر اپنے نام کا اعلان ہونے والا ہے
ندیم فاضلی
No comments:
Post a Comment