Urdu Deccan

Wednesday, March 23, 2022

نشتر خانقاہی

 یوم وفات 07 مارچ 2006


تعمیر ہم نے کی تھی ہمیں نے گرا دیے 

شب کو محل بنائے سویرے گرا دیے 


کمزور جو ہوئے ہوں وہ رشتے کسے عزیز 

پیلے پڑے تو شاخ نے پتے گرا دیے 


اب تک ہماری عمر کا بچپن نہیں گیا 

گھر سے چلے تھے جیب کے پیسے گرا دیے 


پتھر سے دل کی آگ سنبھالی نہیں گئی 

پہنچی ذرا سی چوٹ پتنگے گرا دیے 


برسوں ہوئے تھے جن کی تہیں کھولتے ہوئے 

اپنی نظر سے ہم نے وہ چہرے گرا دیے 


شہر طرب میں رات ہوا تیز تھی بہت 

کاندھوں سے مہ وشوں کے دوپٹے گرا دیے 


تاب نظر کو حوصلہ ملنا ہی تھا کبھی 

کیوں تم نے احتیاط میں پردے گرا دیے


نشتر خانقاہی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...