یوم وفات 07 مارچ 2006
تعمیر ہم نے کی تھی ہمیں نے گرا دیے
شب کو محل بنائے سویرے گرا دیے
کمزور جو ہوئے ہوں وہ رشتے کسے عزیز
پیلے پڑے تو شاخ نے پتے گرا دیے
اب تک ہماری عمر کا بچپن نہیں گیا
گھر سے چلے تھے جیب کے پیسے گرا دیے
پتھر سے دل کی آگ سنبھالی نہیں گئی
پہنچی ذرا سی چوٹ پتنگے گرا دیے
برسوں ہوئے تھے جن کی تہیں کھولتے ہوئے
اپنی نظر سے ہم نے وہ چہرے گرا دیے
شہر طرب میں رات ہوا تیز تھی بہت
کاندھوں سے مہ وشوں کے دوپٹے گرا دیے
تاب نظر کو حوصلہ ملنا ہی تھا کبھی
کیوں تم نے احتیاط میں پردے گرا دیے
نشتر خانقاہی
No comments:
Post a Comment