یوم پیدائش 09 مارچ 1923
کسی ظالم کی جیتے جی ثنا خوانی نہیں ہوگی
کہ دانا ہو کے مجھ سے ایسی نادانی نہیں ہوگی
عدو سے کیا گلہ کرنا کہ وہ معذور لگتا ہے
ہماری قدر و قیمت اس نے پہچانی نہیں ہوگی
نجومی میں نہیں لیکن یہ اندازے سے کہتا ہوں
محبت تو رہے گی پر یہ ارزانی نہیں ہوگی
علاج اصل ہے اک آزمودہ نسخہ دنیا میں
پریشاں تم رہو گے تو پریشانی نہیں ہوگی
کھلا دروازہ رکھ چھوڑا ہے جب جی چاہے آ جانا
اجی اب ہم سے اپنے گھر کی دربانی نہیں ہوگی
نہ تم آئے تو صابرؔ کیا مزہ آئے گا محفل میں
غزل خوانی تو ہوگی پر گل افشانی نہیں ہوگی
صابر آفاقی
No comments:
Post a Comment