یوم پیدائش 21 مارچ
ہمنوا ہے، نہ ہمدم نہ درد آشنا، اس جہاں میں کوئی میرا اپنا نہیں
ہر کسی نے مجھے صرف دھوکا دیا، اب کسی پر بھی مجھ کو بھروسہ نہیں
سوزشیں، رتجگے، سسکیوں کے سوا اور کیا اب تلک زندگی نے دیا
غم مسلسل مقرب رہے عمر بھر رشتہ خوشیوں نے بھی تو بنایا نہیں
حق ہمیشہ سے میرا ہی مارا گیا، میرا سایہ تلک مجھ سے چھینا گیا
روشنی ہر کسی کو ملی ہے تو پھر میری قسمت میں ہی کیوں اجالا نہیں
منہ زبانی جتاتے ہیں ہمدردیاں، ڈوبتے کو بچاتا نہیں اب کوئی
ہائے مرنا بھی جیسے تماشا ہوا، کیوں مدد کے لئے کوئی آتا نہیں
میری راہوں میں کانٹے بچھائے گئے، تیر و نشتر مجھی پر چلائے گئے
میں کہ ایماں کی دولت سے سرشار تھا، صبر کا راستہ میں نے چھوڑا نہیں
عشق سچا اگر ہو تو صدیوں تلک یہ جہاں یاد رکھتا ہے دل والوں کو
زندہ ہے قیس و لیلیٰ کے قصے ابھی، ہیر رانجھا کو جگ نے بھلایا نہیں
شاؔد اچھلتی رہی اور سنبھلتی رہی، کشتیءِ زیست طوفاں سے لڑتی رہی
عزم و ہمت سے میں نے کیا سامنا، ہو مصیبت کوئی ڈر کے بھاگا نہیں
شمشاد شاؔد
No comments:
Post a Comment