یوم پیدائش 13 مارچ 1924
اپنے ہاتھوں کی لکیریں نہ مٹا رہنے دے
جو لکھا ہے وہی قسمت میں لکھا رہنے دے
سچ اگر پوچھ تو زندہ ہوں انہیں کی خاطر
تشنگی مجھ کو سرابوں میں گھرا رہنے دے
آہ اے عشرت رفتہ نکل آئے آنسو
میں نہ کہتا تھا کہ اتنا نہ ہنسا رہنے دے
اس کو دھندلا نہ سکے گا کبھی لمحوں کا غبار
میری ہستی کا ورق یونہی کھلا رہنے دے
شرط یہ ہے کہ رہے ساتھ وہ منزل منزل
ورنہ زحمت نہ کرے باد صبا رہنے دے
یوں بھی احساس الم شب میں سوا ہوتا ہے
اے شب ماہ مری حد میں نہ آ رہنے دے
زندگی میرے لیے درد کا صحرا ہے شمیمؔ
میرے ماضی مجھے اب یاد نہ آ رہنے دے
مبارک شمیم
No comments:
Post a Comment