یوم پیدائش 06 اپریل 1938
ہم قفس میں رہ کے جس کو آشیاں کہتے رہے
تھی فقط حد نظر ہم آسماں کہتے رہے
اک سراب مستقل کو گلستاں کہتے رہے
اس بت نا مہرباں کو مہرباں کہتے رہے
آندھیوں نے آشیانے تو مٹا ڈالا مگر
چند تنکے آشیاں کی داستاں کہتے رہے
جب زباں نے ساتھ چھوڑا بن گئیں یہ ترجماں
ہم جن آنکھوں کو ہمیشہ بے زباں کہتے رہے
کارواں نظروں سے اوجھل تھا اور اوجھل ہی رہا
ہم غبار کارواں کو کارواں کہتے رہے
دل کے اک چھوٹے سے گوشے میں وہ جا کر گم ہوا
جس کو نادانی میں ہم سارا جہاں کہتے رہے
اس عقیدت کا برا ہو ہم بیاباں کو بھی مہرؔ
خون دل سے سینچتے اور گلستاں کہتے رہے
سلطانہ مہر
No comments:
Post a Comment