یوم پیدائش 15 اپریل 1935
بچھڑتے دامنوں میں پھول کی کچھ پتیاں رکھ دو
تعلق کی گرانباری میں تھوڑی نرمیاں رکھ دو
بھٹک جاتی ہیں تم سے دور چہروں کے تعاقب میں
جو تم چاہو مری آنکھوں پہ اپنی انگلیاں رکھ دو
برستے بادلوں سے گھر کا آنگن ڈوب تو جائے
ابھی کچھ دیر کاغذ کی بنی یہ کشتیاں رکھ دو
دھواں سگرٹ کا بوتل کا نشہ سب دشمن جاں ہیں
کوئی کہتا ہے اپنے ہاتھ سے یہ تلخیاں رکھ دو
بہت اچھا ہے یارو محفلوں میں ٹوٹ کر ملنا
کوئی بڑھتی ہوئی دوری بھی اپنے درمیاں رکھ دو
نقوش خال و خد میں دل نوازی کی ادا کم ہے
حجاب آمیز آنکھوں میں بھی تھوڑی شوخیاں رکھ دو
ہمیں پر ختم کیوں ہو داستان خانہ ویرانی
جو گھر صحرا نظر آئے تو اس میں بجلیاں رکھ دو
زبیر رضوی
No comments:
Post a Comment