یوم پیدائش 04 اپریل 1942
نظم فریبوں کی سپاہ
عکس در عکس اترتی ہے فریبوں کی سپاہ
غُل مچاتی ہوئی پرچھائیاں سینے پہ سوار
حلق کی سمت لپکتی ہوئی قاتل برچھی
جانب قلب جھپٹتی ہے وہ خونیں تلوار
آنکھ کو تاک رہا ہے یہ ستم گر نیزہ
عکس در عکس اُترتی ہے فریبوں کی سپاہ
کھوکھلے سر میں اُبھرتا ہے مسیحائی کا زعم
رقص کرتے ہوئے بہلاووں کا سرسبز چمن
خوش نگاہی کی طلب، کشتہ اُمیدوں کا کفن
بے لباسی پہ لکھی تہمت ارزاں کی سند
چاروں اطراف سے آتی ہے فریبوں کی سپاہ
جو بھی لکھتا ہے یہ نامہ مری رُسوائی کا
ہاتھ میں اس کے فریبوں کے سوا کچھ بھی نہیں
احفاظ الرحمٰن
No comments:
Post a Comment