یوم پیدائش 04 اپریل 1969
جیون ہے شجر سے بھی
اور اس کے ثمر سے بھی
ارزاق مقدر ہیں
آتے ہیں جدھر سے بھی
دلبر سے محبت ہے
دل سے بھی جگر سے بھی
حالات بگڑتے ہیں
محرومی کے ڈر سے بھی
جلتے ہیں یہاں جنگل
معمولی شرر سے بھی
دل تیز دھڑکتا ہے
موسم کے اثر سے بھی
محبوب کا چہرہ تو
روشن ہے قمر سے بھی
پیارا ہے وطن اپنا
ہے پیار قطر سے بھی
ہم دور ہیں ایماں سے
اللہ کے گھر سے بھی
انسان کی عظمت کیا
کمتر ہے بقر سے بھی؟
اب علم و ہنر والے
لڑتے ہیں جگر سے بھی
چھوڑیں گے نہ حق اپنا
نکلیں گے نہ گھر سے بھی
قرباں ہیں بشیر اب ہم
اس دیش پہ سر سے بھی
بشیر عبد المجید
No comments:
Post a Comment