یوم پیدائش 12 اپریل 1968
آج میں ایسے حمد زار میں تھا
اک تحیّر ہر اک نگار میں تھا
چھو کے جس گل کو لوگ راکھ ہوئے
میں بقا کی اسی قطار میں تھا
عزم تھا قافلے کے قدموں میں
دشت روندا ہوا غبار میں تھا
گیسوؤں میں بھی بے نمک ہی رہا
آبِ شور ایسا آبشار میں تھا
شہر پاگل تھا شہر یاروں میں
میں وہاں کب کسی شمار میں تھا
فتح دنیا کو کر رہا تھا میں
اور یمیں نرغۂ یسار میں تھا
خلق تھی دامِ اعتبار میں اور
شاہ مصروف لوٹ مار میں تھا
گردشِ آسماں نہ تھی اب کے
آسماں خود ہی گردبار میں تھا
حرف تفصیل کے اشارے تھے
کیا ہنر اس کے اختصار میں تھا
عکس تھے اس کے آئنہ تمثال
شعر پھر میر کے دیار میں تھا
یوں کہیں گے کبھی نظیر نظر
کچھ سلیقہ تو خاکسار میں تھا
واحد نظیر
No comments:
Post a Comment