یوم پیدائش 19 اپریل 1877
یوں کہنے کو خنجر کو بھی خنجر ہی کہیں گے
پر کیا تیرے ابرو کے برابر ہی کہیں گے
زاہد جو مزا مے میں یہاں پوچھ نہ ہم سے
کہنا ہے جو کچھ وہ لب کوثر ہی کہیں گے
مانا نہ کریں وعدہ ہمیں بھی تو کہیں وہ
گر کچھ نہیں حال دل مضطر ہی کہیں گے
سننے کی کوئی حد بھی ہے ہاں پوچھتے کیوں ہو
ہم حال بھی اپنا سر محشر ہی کہیں گے
دو لفظوں میں کیوں کر ہو نہ سننا ہے نہ سنئے
ہم کہنے کو بیٹھیں گے تو دفتر ہی کہیں گے
سننے کو تو کیا جانئے کیا کیا نہ سنیں گے
کہنے کو تو حال دل مضطر ہی کہیں گے
اس میں تری مژگاں ہو کہ ہو گوشہ ابرو
چبھ جائے جو دل میں اسے نشتر ہی کہیں گے
یوں کام کئے اس نے ہزاروں ہمیں کیا کام
ہم آئنہ سازیٔ سکندر ہی کہیں گے
تم نے بھی تو دیکھا ہے فہیمؔ اس کو کہو نہ
ہم اپنی سی کہنے کو برابر ہی کہیں گے
فہیم الدین احمد فہیم
No comments:
Post a Comment