Urdu Deccan

Friday, April 29, 2022

فہیم الدین احمد فہیم

 یوم پیدائش 19 اپریل 1877


یوں کہنے کو خنجر کو بھی خنجر ہی کہیں گے 

پر کیا تیرے ابرو کے برابر ہی کہیں گے

 

زاہد جو مزا مے میں یہاں پوچھ نہ ہم سے 

کہنا ہے جو کچھ وہ لب کوثر ہی کہیں گے

 

مانا نہ کریں وعدہ ہمیں بھی تو کہیں وہ 

گر کچھ نہیں حال دل مضطر ہی کہیں گے

 

سننے کی کوئی حد بھی ہے ہاں پوچھتے کیوں ہو 

ہم حال بھی اپنا سر محشر ہی کہیں گے

 

دو لفظوں میں کیوں کر ہو نہ سننا ہے نہ سنئے 

ہم کہنے کو بیٹھیں گے تو دفتر ہی کہیں گے

 

سننے کو تو کیا جانئے کیا کیا نہ سنیں گے 

کہنے کو تو حال دل مضطر ہی کہیں گے

 

اس میں تری مژگاں ہو کہ ہو گوشہ ابرو 

چبھ جائے جو دل میں اسے نشتر ہی کہیں گے

 

یوں کام کئے اس نے ہزاروں ہمیں کیا کام 

ہم آئنہ سازیٔ سکندر ہی کہیں گے 


تم نے بھی تو دیکھا ہے فہیمؔ اس کو کہو نہ 

ہم اپنی سی کہنے کو برابر ہی کہیں گے


فہیم الدین احمد فہیم



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...