یوم پیدائش 26 اپریل 1984
ہجر ہے یاس ہے وحشت کا سماں ہے میں ہوں
عمر ٹھہرے ہوئے موسم میں رواں ہے میں ہوں
میرے دامن میں جو گنجینۂ گل ہے تو ہے
تیرے دامن میں جو اک برگ خزاں ہے میں ہوں
از زمیں تا بہ فلک رات کا سناٹا ہے
ایسے عالم میں جو یہ شور فغاں ہے میں ہوں
دیکھ ہجراں میں خیالات پریشاں کا فسوں
جا بجا عکس ترا رقص کناں ہے میں ہوں
طاق ہر شام پہ جلتی ہوئی امید ہے تو
یہ جو بجھتی ہوئی حسرت کا دھواں ہے میں ہوں
چشم صد ناز ہے پیکان ستم ہے تو ہے
اور اک زخم جگر جان ستاں ہے میں ہوں
برف جذبات کی پگھلی ہے مری حدت سے
اندروں تیرے جو اک شعلہ فشاں ہے میں ہوں
محب وفا
No comments:
Post a Comment