Urdu Deccan

Wednesday, May 11, 2022

اسلم انصاری

 یوم پیدائش 30 اپریل 1939


ہر شخص اس ہجوم میں تنہا دکھائی دے

دنیا بھی اک عجیب تماشا دکھائی دے


اک عمر قطع وادیٔ شب میں گزر گئی

اب تو کہیں سحر کا اجالا دکھائی دے


اے موجۂ سراب تمنا ستم نہ کر

صحرا ہی سامنے ہے تو صحرا دکھائی دے


میں بھی چلا تو پیاس بجھانے کو تھا مگر

ساحل کو دیکھتا ہوں کہ پیاسا دکھائی دے


الفاظ ختم ہوں تو ملے رشتۂ خیال

یہ گرد بیٹھ جائے تو رستہ دکھائی دے


کون اپنا عکس دیکھ کے حیراں پلٹ گیا

چہرہ یہ موج موج میں کس کا دکھائی دے


تو منکر وفا ہے تجھے کیا دکھاؤں دل

غم شعلہ نہاں ہے بھلا کیا دکھائی دے


ہر شب در خیال پہ ٹھہرے وہ ایک چاپ

ہر شب فصیل دل پہ وہ چہرہ دکھائی دے


لب‌ بستگی سے اور کھلے غنچۂ صدا

وہ چپ رہے تو اور بھی گویا دکھائی دے


اسلمؔ غریب‌ شہر سخن ہے کبھی ملیں

کہتے ہیں آدمی تو بھلا سا دکھائی دے


اسلم انصاری


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...