آج رندوں کو ہے غم کس کے بچھڑ جانے کا
منہ پھرالیتے ہیں منہ دیکھ کے پیمانے کا
دعویٰ خوں ہے غلط شمع پہ پروانے کا
خود اسے شوق ہے جلتے ہوئے مرجانے کا
داخلہ ٹھیک نہیں بزم میں دیوانے کا
کہیں اس پر کوئی سایہ نہ ہو ویرانے کا
مصر نے پائی ہے اک اندھے کنویں سے شہرت
ہائے اک شہر پہ احسان ہے ویرانے کا
شہر میں ہر کوئی بیگانہ نظر آتا ہے
گاؤں میں وہم وگماں تک نہیں بیگانے کا
کچھ تو موسی کو بھی حسرت بھی نظربازی کی
اور کچھ شوق تھا اس کو بھی نظر آنے کا
زلف و رخسار کہاں اور شب و روز کہاں
کچھ محل ہی نہ تھا قرآں میں قسم کھانے کا
گل نے کیوں پائی سزا چاک گریبانی کی
کیا اڑایا تھا مذاق آپ کے دیوانے کا
شیخ آئے نہ کہیں بھیس بدل کر رندو
راستہ پوچھ رہا تھا کوئی میخانے کا
کہیے دشمن سے ذرا وار سلیقے سے کرے
کہیں ٹوٹے نہ بھرم آپ کے یارانے کا
پہلے وہ مشق کریں چہرہ بدلنے کی عدیل
ورنہ اندیشہ ہے پہچان لئے جانے کا
No comments:
Post a Comment