برہم مزاج ہونے لگا رہنماؤں کا
جاری ہے ہم پہ سلسلہ ان کی جفاؤں کا
آنے لگی ہیں شہری ہوائیں جو اس طرف
چہرہ بدلتا جاتا ہے اب میرے گاؤں کا
شہرِ ستم کی دھوپ لگی کرنے بدحواس
سب ڈھونڈنے لگے ہیں پتہ ٹھنڈی چھاؤں کا
اہلِ زمیں کے مسئلے باقی ہیں آج تک
کچھ لوگ سیر کرتے ہیں لیکن خلاؤں کا
محفوظ مجھ کو رکھتا ہے شدت کی دھوپ سے
ہے سر پہ سائبان جو ماں کی دعاؤں کا
خاموشیوں کی کھوج میں نکلا ہوں میں سعیدؔ
پیچھے ہے میرے کارواں تیکھی صداؤں کا
No comments:
Post a Comment