شمع رسالت کے پروانوں سے
ہردَور میں مردِ مومن ہی ، تاریخ کا عنواں کہلائے
قربان دل و جاں کر ڈالو جب نامِ محمدؐ آ جائے
پھر روحِ عمل، پیغامِ وفا ، ہر ساز نفس تھّرائے
ٹہری ہوئی غم کی راتوں میں اک نور کا پرچم لہرائے
ہر عزم و عمل سے ہو پیدا ، تعمیر و ترقی کا عالم
ہر گام تمہارا دنیا کو ، کردار کا مطلب سمجھائے
ایماں کی حرارت سے اک دن یخ بستہ اندھیرے پگھلیں گے
کیوں وقت کا شکوہ ہو تم کو کیوں درد کا سورج گہنائے
پھر تازہ لہو امیدوں کا ، کانٹوں کی رگوں میں دوڑا دو
پھر جوشِ عمل ان راہوں میں تقدیرِ گلستان کہلائے
آوازِاذاں میں لرزاں ہے پیغام نبوت کا جلوہ
ہمراہ ابھی تک چلتے ہیں، اُمیدِ شفاعت کے سائے
تم بندۂ حق ہو پھر تم سے ، قرآن کے اُجالے کہتے ہیں
جینے کی قسم اس طرح جیو خود موت بھی تم سے گھبرائے
مسعود و مبارک ہے کتنا انساں کیلئے یہ آج کا دن
ہرسانس رئیس اختر میری، اظہارِ عقیدت بن جائے
No comments:
Post a Comment