گل کی خوشبو کی طرح آنکھ کے آنسو کی طرح
دل پریشان ہے گرد رمِ آہو کی طرح
زلف گیتی کو بھی آئینہ و شانہ مل جائے
تم سنور جاؤ جو آرائشِ گیسو کی طرح
رقص کرتا ہے زر و سیم کی جھنکار پہ فن
مرمریں فرش پہ بجتے ہوئے گھنگرو کی طرح
آج بھی شعبدۂ اہلِ ہوس ہے انصاف
دست بقّال میں پُرکار ترازو کی طرح
آج یہ شام ہے مسموم دھوئیں کی مانند
کل یہی وقت تھا مہکے ہوئے گیسو کی طرح
جو گل اندام مکینوں کو ترستے ہیں ہنوز
شہر میں کتنے کھنڈر ہیں مرے پہلو کی طرح
مدتوں ضبطِ محبت نے سنبھالا ہم کو
تیرا دامن جو ملا گر گئے آنسو کی طرح
توڑ دیتی ہے سیاہ فام فضاؤں کا جمود
یاد آکر تری اُڑتے ہوئے جگنو کی طرح
ان گنت موڑ، صعوباتِ سفر راہ طویل
کون اب دے گا سہارا ترے بازو کی طرح
محشرستانِ سکوں ہے مری ہستی ماهر
کسی شہباز کے ٹوٹے ہوئے بازو کی طرح
No comments:
Post a Comment