میں نے خود پنجرے کی کھڑکی کھولی ہے
چڑیا اپنے آپ کہاں کچھ بولی ہے
سورج نے جنگل میں ڈیرے ڈالے ہیں
پت جھڑ نے بھی کھیلی آنکھ مچولی ہے
یوں باہیں پھیلائے ملتی ہے آ کر
بارش جیسے مٹی کی ہمجولی ہے
ہائے تشخص کی ماری اس دنیا میں
سب کی اپنی ریتی اپنی بولی ہے
دیپ جلائے رستہ تکتی رہتی ہوں
وہ آئے تو عید دوالی ہولی ہے
اس کا لہجہ رات کی رانی کے جیسا
اف اس نے یہ کیسی خوشبو گھولی ہے
کیسی گرانی ہے عزت کی روٹی میں
اس سے سستی اک بندوق کی گولی ہے
پوچھ رہی ہے اپنی ماں سے اک بیٹی
بیاہ کے معنی زیور لہنگا چولی ہے
کب سے لے کر آس کرم کی یا اللہ
تیرے در پہ اپنی پھیلی جھولی ہے
خود غرضی کے دور میں سیماؔ رشتوں سے
امیدیں رکھتی ہے کتنی بھولی ہے
No comments:
Post a Comment