تعلقات کی گرمی نہ اعتبار کی دھوپ
جھلس رہی ہے زمانے کو انتشار کی دھوپ
غم حیات کے سائے مہیب ہیں ورنہ
کسے پسند نہیں ہے خیال یار کی دھوپ
ابھی سے امن کی ٹھنڈک تلاش کرتے ہو
ابھی تو چمکی ہے یارو صلیب و دار کی دھوپ
الم کی راہ گزر پر بہت ہی کام آئیں
تمہاری یاد کی شمعیں ہمارے پیار کی دھوپ
کمند ڈال دیں سورج پہ آؤ مل جل کر
اب اور تیز نہ ہونے دیں روزگار کی دھوپ
لبوں پہ مہر جگر خوں چکاں نظر حیراں
اب اور کیسے جلائے گی یہ بہار کی دھوپ
تمہارے شہر کی شیدا بدست یادوں کو
تلاش کرتی رہی دل کے کوہسار کی دھوپ
بہت قریب ہیں سائے حیات نو کے امیدؔ
بہت ہی جلد ڈھلے گی اب انتظار کی دھوپ
No comments:
Post a Comment