حیات کیا ہے یہ جانا برے حوالوں سے
رہا ہے واسطہ اپنا تباہ حالوں سے
کبھی تو یوں بھی ہوا جگنوؤں کے پاؤں پڑے
ہوئے ہیں خوار بہت روٹھ کر اجالوں سے
مزا تو جب ہے مخالف سے دوستی ٹھہرے
یہ کیا کہ دشمنی رکھتے ہو ہم خیالوں سے
بڑا وہی ہے جو چھوٹا بھی ہے کہیں نہ کہیں
وجود الگ ہی نہیں ماموؤں کا سالوں سے
کوئ خبر بھی ہے کب گاؤں واپس آئیں گے لوگَ
کواڑ پوچھتے رہتے ہیں گھر کے تالوں سے
نئے جہاں میں تقاضے ہیں منزلوں کے نئے
ہے ختم رشتہءِ پا اب سفر کے چھالوں سے
نہ سمجھے کہدو فقط خود کو با کمال کوئی
ہر ایک شہر ہے معمور با کمالوں سے
غم آشنا ہی نہیں جس نے میرے نالوں کی
بجائے ندیوں کے دی ہے مثال نالوں سے
عجب تو یہ ہے وہ خود کم نہ تھے پلے ہیں جہاں
شکایتیں ہیں جنھیں آستیں کے پالوں سے
روا نہیں ہے سپاہِ قلم کو تلخ کلام
گریز چاہئے منان تیغ بھا لوں سے
No comments:
Post a Comment