لمحوں میں اضطراب کا عالم بدل گیا
جب یہ مراوجود، مرے ساتھ ڈھل گیا
پھر یوں ہوا،کہ تشنہ لبی کام آگئی
ہاتھوں سے، اس کو دیکھ کے ساغر پھسل گیا
یہ اس کی روشنی سے محبت کی ہے دلیل
روشن دئے کی لَو سے لپٹ کر جو جل گیا
عبرت کا ہے مقام، نمائش کے شوق میں
حدّت سے آپ اپنی ہی سورج پگھل گیا
چہرے اداسیوں کا کفن اوڑھنے لگے
دستورِ کائناتِ مسرت بدل گیا
حماد،زخم دیتی رہی شبنمی ردا
سورج کو سائبان بنایاسنبھل گیا
No comments:
Post a Comment