جبراً پیاس پہ پہرا ہوتے دیکھا ہے
میں نے دریا صحرا ہوتے دیکھا ہے
آنکھ میں موت کے کالے کالے آنسو ہیں
خواب میں نیند کو گہرا ہوتے دیکھا ہے
آنکھیں مونالیزا جیسی ہیں اس کی
خاموشی کو چہرہ ہوتے دیکھا ہے
دوڑا آتا ہے اب ہر آوازے پر
آفیسر کو بہرا ہوتے دیکھا ہے
جھیل کنارے بیٹھے بیٹھے کیا تم نے
شام کا رنگ دوپہرا ہوتے دیکھا ہے
پیڑ کی گردن پر اب آرا رکھ بھی دو
کس نے کاٹھ کٹہرا ہوتے دیکھا ہے
No comments:
Post a Comment