میں نے تو آسماں بھی اُجڑنے نہیں دیا
آنگن میں چاند اپنے اترنے نہیں دیا
تیرے فتور نے تجھے اُکسایا جنگ پر
میرے خلوص نے مجھے لڑنے نہیں دیا
تیرے فراق نے ہی کیا جاں بلب مجھے
تیرے ہی انتظار نے مرنے نہیں دیا
جو میں نے چاہا دل نہ ہوا اُس پہ متفق
جو دل نے چاہا میں نے وہ کرنے نہیں دیا
کچھ ایسے میں نے ضبط کی قائم مثال کی
پلکوں سے ایک اشک بھی گرنے نہیں دیا
مرنے کے بعد بھی نہیں بُھولا تجھے کبھی
عہدِ وفا سے دل کو مُکرنے نہیں دیا
دل جل کے خاک ہو گیا عابدؔ فراق میں
اک مُشت خاک کو بھی بکھرنے نہیں دیا
No comments:
Post a Comment