کارواں دشت میں رکتے ہیں گزر جاتے ہیں
تھوڑی ہی دیر سہی روشنی کر جاتے ہیں
گرتے رہتے ہیں جو آکاش کے دامن سے سدا
جانے ٹوٹے ہوئے تارے وہ کدھر جاتے ہیں
پھر چھلک جاتے ہیں اکثر یہ تو بے موسم ہی
غم کی شدت سے مرے نینا جو بھر جاتے ہیں
بیٹھتا جب بھی ہوں تصویر بنانے اپنی
سامنے میرے کئی چہرے ابھر جاتے ہیں
آتے ہیں دور برے دنیا پہ اکثر لیکن
وقت کے ساتھ یہ آخر کو گزر جاتے ہیں
سہیل عمر ساحل
No comments:
Post a Comment