کہاں ہم مدتوں سے گھر رہے ہیں
سفر میں ہی تو ہم اکثر رہے ہیں
ہتھیلی پر ہمارے چاند پھر بھی
ستاروں کا تعاقب کر رہے ہیں
نہیں ہے ذکر پس منظر ہمارا
کبھی ہم مرکز منظر رہے ہیں
یہ اجڑی بستیاں خالی کرا دو
ہم آنکھوں میں سمندر بھر رہے ہیں
ہواؤں سے کنارے لگ گئے ہیں
کئی جو میل کا پتھر رہے ہیں
فقط سرگوشیوں سے کام لیجے
یہاں کچھ لوگ خود سے ڈر رہے ہیں
سفینے ہو گئے ہیں سوز عنقا
سمندر میں پڑے لنگر رہے ہیں
No comments:
Post a Comment