مخالف ہوں ترا لیکن ذلالت کر نہیں سکتا
محبت کر تو سکتا ہوں عداوت کر نہیں سکتا
تجھے کیا فرق پڑتا ہے برا مانوں بھلا مانوں
جو چاہا بک دیا تو نے وضاحت کر نہیں سکتا
زباں انسان کی اسکا ہمیشہ ظرف بتلاتی
کسی کے میں رویہ کی ملامت کر نہیں سکتا
سبب کچھ بھی ہو لیکن ترےچہرے پےجو دہشت ہے
بتا دوں پھر کبھی اتنی جرائت کر نہیں سکتا
میں شاعر ہوں نیا لیکن مرا رشتہ ہے کمتر سے
کسی حالت میں دھرتی سے بغاوت کر نہیں سکتا
مرے ہم دم کسی کا بھی برا یہ سوچنا کیسا
بھلا سا آدمی اسلم حماقت کر نہیں سکتا
No comments:
Post a Comment