مرا جنون شعورِ نگاہ مانگتا ہے
پھر اس کے بعد فلک سے یہ راہ مانگتا ہے
بتاوں کیسے کہ سینے میں کیا قیامت ہے
تپش ہے ایسی کہ شعلہ پناہ مانگتا ہے
جو ٹلتا ہی نہیں اس دل کو زخم دینے سے
ستم تو دیکھ یہ اس سے نباہ مانگتا ہے
کروں گا کیسے یہ ثابت وہ میرا قاتل ہے
یہاں کا قاضی تو پہلے گواہ مانگتا ہے
کبھی جنوں سے بھی دیوان دل کی بات بنی
تو کتنا بھولا ہے پتھر سے چاہ مانگتا ہے
No comments:
Post a Comment