پھر ہوئے بدنام،کہلانے لگے فرزانہ ہم
پھر کسی بستی میں آ نکلے دلِ دیوانہ ہم
ایک تنہا دل ، بھٹکتی روح ، اک پیاسی نظر
اے جنوں تیرے لیے لائے ہیں کیا پروانہ ہم
تیشہء فرہاد سے لے کر بہرِ دورِ فلک
آج تک دہرا رہے ہیں ایک ہی افسانہ ہم
انقلابِ میکدہ کی بات یوں کرتے ہیں لوگ
جیسے ہوں نا آشنائے ساقئ میخانہ ہم
اُس جہان دوش و فردا و بلند و پست سے
کتنی دور اور آ گئے اے لغزشِ مستانہ ہم
منظرِ دار و رسن میں ہم الجھ کر رہ گئے
ورنہ نکلے تھے بعزمِ کوچہء جانانہ ہم
چاند تاروں کے کھلنے مانگتے ہیں چرخ سے
اے جمالیؔ لائے ہیں کیا فطرتِ طفلانہ ہم
No comments:
Post a Comment