Urdu Deccan

Saturday, August 20, 2022

طفیل احمد جمالی

یوم وفات 12 اگست 1974

پھر ہوئے بدنام،کہلانے لگے فرزانہ ہم
پھر کسی بستی میں آ نکلے دلِ دیوانہ ہم

ایک تنہا دل ، بھٹکتی روح ، اک پیاسی نظر
اے جنوں تیرے لیے لائے ہیں کیا پروانہ ہم

تیشہء فرہاد سے لے کر بہرِ دورِ فلک
آج تک دہرا رہے ہیں ایک ہی افسانہ ہم

انقلابِ میکدہ کی بات یوں کرتے ہیں لوگ
جیسے ہوں نا آشنائے ساقئ میخانہ ہم

اُس جہان دوش و فردا و بلند و پست سے
کتنی دور اور آ گئے اے لغزشِ مستانہ ہم

منظرِ دار و رسن میں ہم الجھ کر رہ گئے
ورنہ نکلے تھے بعزمِ کوچہء جانانہ ہم

چاند تاروں کے کھلنے مانگتے ہیں چرخ سے
اے جمالیؔ لائے ہیں کیا فطرتِ طفلانہ ہم

طفیل احمد جمالی

 

 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...