دُنیا کو اُس نے چھوڑ دیا ہے خفا کے ساتھ
واصل ہوا ہے نور محمد بقا کے ساتھ
اُس کی ہر ایک بات کی تھی بات ہی الگ
اُس کا ہر ایک کام تھا صِدق و صفا کے ساتھ
آئے ہیں اُس کی زیست میں صد ہا تغیرات
ثابت قدم رہا وہ دلِ باوفا کے ساتھ
گو ایک شام اُس کی نظر بند ہو گئی
دیکھا گیا وہ نورِ بصیرت فزا کے ساتھ
رکھتا تھا اُس کا فقر بھی شانِ شہنشہی
اُس نے بتائی زیست ہے صبر و رضا کے ساتھ
اولاد ، بھائی ، دوست سبھی اُس سے خوش رہے
ملتا تھا سب سے وہ دل درد آشنا کے ساتھ
رکھیں گے یاد اہلِ ہنر دیر تک اُسے
آیا وہ بزمِ شعر میں طرفہ نوا کے ساتھ
سالِ وفات اُس کا ہے انورؔ نے یوں لکھا
وہ ’’عظمتِ ادب‘‘ ہے سرِ ارتقا کے ساتھ
No comments:
Post a Comment