Urdu Deccan

Thursday, August 18, 2022

اکبر معصوم

یوم پیدائش 08 اگست 1960

نہ اپنا نام نہ چہرہ بدل کے آیا ہوں
کہ اب کی بار میں رستہ بدل کے آیا ہوں

وہ اور ہوں گے جو کار ہوس پہ زندہ ہیں
میں اس کی دھوپ سے سایہ بدل کے آیا ہوں

ذرا بھی فرق نہ پڑتا مکاں بدلنے سے
وہ بام و در وہ دریچہ بدل کے آیا ہوں

مجھے خبر ہے کہ دنیا بدل نہیں سکتی
اسی لیے تو میں چشمہ بدل کے آیا ہوں

وہی سلوک وہی بھیک چاہتا ہوں میں
وہی فقیر ہوں کاسہ بدل کے آیا ہوں

مجھے بتاؤ کوئی کام پھر سے کرنے کا
میں اپنا خون پسینہ بدل کے آیا ہوں

میں ہو گیا ہوں کسی نیند کا شراکت دار
میں اک حسین کا تکیہ بدل کے آیا ہوں

سنو کہ جونک لگائی ہے میں نے پتھر میں
میں اک نگاہ کا شیشہ بدل کے آیا ہوں

مرا طریقہ مرا کھیل ہی نرالا ہے
نہ میں زبان نہ لہجہ بدل کے آیا ہوں

وہی اسیر ہوں اور ہے مری وہی اوقات
میں اس جہان میں پنجرہ بدل کے آیا ہوں

اکبر معصوم



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...