یوم پیدائش 07 اگست
ندیم! ایسا بھی یارانہ استوار نہیں
کہ جس میں سلسلہءِ جرم و اعتذار نہیں
بس ایک لفظ وفا پر کھرے اتر جاؤ
محبتوں کے تقاضے تو بے شمار نہیں
ہمارے شہر کا دستور ہی الگ ٹھہرا
یہاں کسی کو کسی پر بھی اعتبار نہیں
ابھی پرندوں کو پنجرے میں بند رہنے دو
۔ابھی حیات کا ماحول خوشگوار نہیں۔
میں بدنصیب کہ تنہا ہی اس کا مالک ہوں
متاعِ غم کا مرے کوئی حصہ دار نہیں
یہی مآل ہے یک طرفہ عشق کا یارو!
میں بیقرار ہوں لیکن وہ بیقرار نہیں
تمہیں نظر نہیں آتی ہیں خامیاں خود کی
تمہارے شہر کا آئینہ عکسدار نہیں؟
خدا کے رحم و کرم پر ادیب! زندہ ہوں
مجھے کسی کی عنایت کا انتظار نہیں
حذیفہ ادیب
No comments:
Post a Comment