اب غم افلاس بھی کردار تک آگئے
لوگ خود کو بیچنے بازار تک آگئے
سرفروشان وفا کی سرفروشی نہ پوچھ
گردنیں لے کر صلیب و دار تک آگئے
تب کہیں احساس تجھ کو میرے گھر کا ہوا
جب مرے شعلے تری دیوار تک آگئے
سرخرو ہوئے تو پھر حاسد الجھنے لگے
پھل لگا تو سنگ بھی یلغار تک آگئے
یہ وفا ہے شوق یا حسن ریاکار ہے
جو سر انکار تھے اقرار تک آگئے
No comments:
Post a Comment