مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
وعدے کی وفا تم سے نہ ہوئی گو جان پہ میرے بن ہی گئی
گر جھوٹا ہوں جھوٹا ہی سہیاب تم کو جھوٹا کون کرے
ہاں وادیءایمن بھی ہے وہی ہاں برق کا مسکن بھی ہے وہی
اور خوش کا خرمن بھی ہے وہی ،پر ان سے تقاضا کون کرے
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبیؔ ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے
No comments:
Post a Comment