کچھ ترے اور کچھ مرے آنسو
بہہ رہے ہیں ردیف سے آنسو
رونے والوں کی کون سنتا ہے
کتنی تمہید باندھتے آنسو
کون آبائی گاؤں چھوڑتا ہے
آنکھ کے پاؤں پڑ گئے آنسو
حسنِ یوسفؑ سے بیش قیمت ہیں
چشمِ یعقوبؑ سے گرے آنسو
آنکھ پتھرا گئی تو پیروں کے
آبلوں سے نکل پڑے آنسو
بھاگ نکلے مری حراست سے
رات کے پونے دو بجے آنسو
بسترِ مرگ پر تھی خاموشی
دفعتاً مسکرا دیے آنسو
کوئی شریان پھٹ گئی ہوتی
ہم اگر اور روکتے آنسو
منزلوں کا نشان ہیں ساجد
اس کے رخسار پر پڑے آنسو
No comments:
Post a Comment