Urdu Deccan

Tuesday, August 23, 2022

قمر جلالوی

یوم پیدائش 19 اگست 1887

کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں 
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں 

اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو 
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں 

جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی واللہ تم اٹھ کے آ نہ سکے 
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں 

بے وجہ نہ جانے کیوں ضد ہے ان کو شب فرقت والوں سے 
وہ رات بڑھا دینے کے لیے گیسو کو سنوارا کرتے ہیں 

پونچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو 
سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں 

کچھ حسن و عشق میں فرق نہیں ہے بھی تو فقط رسوائی کا
تم ہو کہ گوارا کر نہ سکے ہم ہیں کہ گوارا کرتے ہیں 

تاروں کی بہاروں میں بھی قمرؔ تم افسردہ سے رہتے ہو
پھولوں کو تو دیکھو کانٹوں میں ہنس ہنس کے گزارا کرتے ہیں

قمر جلالوی



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...