چراغِ زیست ہوں لو اور دھواں بناتا ہوں
ہوا کے ہاتھ پہ اپنا نشاں بناتا ہوں
میں باندھتا ہوں بکھرتے دلوں کا شیرازہ
جہانِ خام سے تازہ جہاں بناتا ہوں
مری شکستہ جبیں سے ستارے پھوٹتے ہیں
میں خاکزاد ہوں اور کہکشاں بناتا ہوں
اسے تسلی سمجھتا ہوں داد جو مل جائے
میں جب بھی شعر کو حرفِ فغاں بناتا ہوں
کئی نقوش مرے تن پہ یوں تو بنتے ہیں
بس اک وہیں نہیں بنتا جہاں بناتا ہوں
بچھڑنے والے بچھڑتے ہیں کب سہولت سے
سو رفتہ رفتہ اُنہیں رفتگاں بناتا ہوں
منیب، بے گھری حیرت سے دیکھتی ہے مجھے
زمیں کے سر پہ میں جب آسماں بناتا ہوں
No comments:
Post a Comment