یہ اعتراف ہے اس ذاتِ کبریائی کا
کہ خود بتوں کو بھی اقرار ہے خدائی کا
پہنچ گیا وہ ترے آستانِ عالی تک
ملا ہے جادہ جسے عذرِ نارسائی کا
جو عشق کو ہے اِدھر ذوقِ دید کا لپکا
تو حسن کو ہے اُدھر شوق خود نمائی کا
بنایا پیکرِ تصویر محویّت نے مجھے
نہ وصل کی ہے مسرت نہ غم جدائی کا
وہ قتل گاہ میں ہے خنجر آزما قاصر
چلو کہ وقت ہے اب قسمت آزمائی کا
No comments:
Post a Comment