Urdu Deccan

Thursday, September 29, 2022

نجیبہ عارف

یوم وفات 24 سپتمبر 1964

نگاہ و رخ پر ہے لکھی جاتی جو بات لب پر رکی ہوئی ہے 
مہک چھپے بھی تو کیسے دل میں کلی جو غم کی کھلی ہوئی ہے 

جو دل سے لپٹا ہے سانپ بن کر ڈرا رہا ہے بچا رہا ہے 
یہ ساری رونق اس اک تصور کے دم سے ہی تو لگی ہوئی ہے 

خیال اپنا کمال اپنا عروج اپنا زوال اپنا 
یہ کن بھلیوں میں ڈال رکھا ہے کیسی لیلا رچی ہوئی ہے 

ہم اپنی کشتی سراب گاہوں میں ڈال کر منتظر کھڑے ہیں 
نہ پار لگتے نہ ڈوبتے ہیں ہر اک روانی تھمی ہوئی ہے 

ازل ابد تو فقط حوالے ہیں وقت کی بے مقام گردش 
خبر نہیں ہے تھمے کہاں پر کہاں سے جانے چلی ہوئی ہے 

بھڑک کے جلنا نہیں گوارا تو میرے پروردگار مولا 
نہ ایسی آتش نفس میں بھرتے کہ جس سے جاں پر بنی ہوئی ہے

نجیبہ عارف


 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...