Urdu Deccan

Thursday, September 29, 2022

شمشاد شاد

اس قدر شور کہ ظلمت بھی لگی تھی ڈرنے
رات سونے نہ دیا آہِ دلِ مضطر نے

غالباً روح نے لبیک کہا تھا میری
خاک کو چاک پہ جوں ہی رکھا کوزہ گرنے

کس لیے خوف کو تم دل میں جگہ دیتے ہو
جان کتنوں کی یہاں لی ہے قضا کے ڈرنے

جن کی تعمیر میں شامل ہے پسینہ میرا
مجھ کو ٹھکرادیا یکسر انہی بام و درنے

خیر سے آنکھ چرانے کا نتیجہ ہے کہ آج 
ہر طرف سے دلِ انساں کو ہے گھیرا شر نے

گل کئی رنگ کے گلشن میں میسر تھے مگر
مجھ کو روکے رکھا الزامِ جفا کے ڈرنے

پھر دل وعقل کا چلتا ہی نہیں زور کوئی
آنکھ لگ جائے کسی سے جو محبت کرنے

شاد ان سر پھری موجوں کی خوشی کی خاطر
مسترد کتنے کناروں کو کیا ساگر نے

شمشاد شاد

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...