بیٹھا ہے مسئلوں کے جو طوفاں کو ٹال کر
کاغذ کی ناؤ رکھے گا کب تک سنبھال کر
وہ جو سڑک کنارے کھڑا ہے لہولہان
پچھتا رہا ہے بھیڑ میں پتھر اچھال کر
مصروفیت میں گھر کی پتا ہی نہیں چلا
کب باپ بوڑھا ہوگیا بچوں کو پال کر
تھی اک لگن کہ خشک نہ ہوں غم کی کھیتیاں
لایا ہوں پتھروں سے میں دریا نکال کر
رشتوں کا کوڑھ ڈسنے لگا جب وجود کو
پینے لگا وہ نیم کے پتے ابال کر
بیٹھا ہوا نہ گھات میں ہو خونی حادثہ
کیجے سڑک کو پار مگر دیکھ بھال کر
اب تو امیرِ شہر بھی دیتا نہیں جواب
اے مفلسی دراز نہ دستِ سوال کر
No comments:
Post a Comment