گلوں کا رنگ کلی کا شباب مانگے ہے
نگاہ شوق بھی کیا انتخاب مانگے ہے
جو تجھ سے مجھ سے خفا ہو گئے ہیں صدیوں سے
نگاہ پھر انہیں لمحوں کا خواب مانگے ہے
کسی کو کچھ بھی نہیں مل سکا زمانے میں
جسے ملا ہے وہ کیوں بے حساب مانگے ہے
اب اس سے بڑھ کے ترقی کا دور کیا ہوگا
حرم میں بیٹھ کے زاہد شراب مانگے ہے
اب ایسی ضد کا بھلا کیا علاج ہوگا ضیاؔ
وہ ماہتاب ہے اور آفتاب مانگے ہے
No comments:
Post a Comment