تعبیر جانتی ہے سر دار کیوں ہوئے
ہم خواب دیکھنے کے گنہ گار کیوں ہوئے
بازار طوطا چشم سے لوٹو تو پوچھنا
ہم بے مروتی کے خریدار کیوں ہوئے
ہم پر عتاب دھوپ کا ہے تو سبب بھی ہے
دشت الم میں سایۂ دیوار کیوں ہوئے
احباب کی ہے بات کہیں تو کسے کہیں
ہم سانپ پالنے کے گنہ گار کیوں ہوئے
پل بھر ہمارے گھر میں بھی پھر ہم سے پوچھنا
اس کاٹ کھاتی قبر سے بیزار کیوں ہوئے
طرفہ نہ کیوں لہو کا ہو بے حد و بے حساب
ہم شہر کاروبار میں فن کار کیوں ہوئے
ہاں لائق سزا ہیں کہ بزم غزل میں بھی
ہم لوگ مرثیہ کے طلب گار کیوں ہوئے
No comments:
Post a Comment