مشعل سا کوئی پھول کھلا خاک پر نہیں
یہ اس لئے کہ روشنی اب چاک پر نہیں
مجھ سے کہا گیا ہے کہ میں صبر ہی کروں
میٹھا جو کوئی پھل ہو، ابھی تاک پر نہیں
جلنے لگا ہوں جسم کے اندر سے میں کہیں
ہجراں کی آگ اب مری پوشاک پر نہیں
صحرا ، میاں تو خود کو گلے سے لگا کے دیکھ
حیرت جو میرے دیدہء نمناک پر نہیں
دیکھو ، یہ آبشار ، پرندے ، حسین پیڑ
لگتا ہے جیسے کوہ و دمن خاک پر نہیں
چلتا ہے کوئی زور دل_ناتواں پہ بس
کچھ بھی توانا ،سر کش و بے باک پر نہیں
ان میں سے ایک پر کوئی وعدہ بھی تھا ترا
گذرا ہوا زمانہ جن اوراق پر نہیں
آنکھوں کے بھیگنے کی ستاروں کو کیا خبر
بارش جو خاک پر ہے وہ افلاک پر نہیں
ملبہ اٹھا کے لے گئے وہ انہدام سے
مسمار ہو کے بھی کوئی اب خاک پر نہیں
ہاں اس لحاظ سے مجھے مفلس خیال کر
دنیا مری نظر تری املاک پر نہیں
ڈرتا ہوں خود ہدف نہ اسی تیر کا بنوں
فتراک میں جو بوجھ سا فتراک پر نہیں
انجان سا جو خوف برابر میں آ بسا
پہلے سی وہ گرفت مری دھاک پر نہیں
عارف میں جس کو چھونے لگا ہوں خیال میں
شاید اسے یقیں مرے ادراک پر نہیں
No comments:
Post a Comment