Urdu Deccan

Tuesday, November 22, 2022

شکیبؔ کلگانوی

یوم پیدائش 05 نومبر 1997

فرصت میں مجھ سے ملنا بھی اک کام ہی تو ہے
جلدی نہ کر تو جانے کی بس شام ہی تو ہے

ڈر ڈر کے جینا چھوڑ یہاں لوگ ہیں عجیب
بدنام ہے تو کیا ہوا بدنام ہی تو ہے

کیا رنج و غم ہے کیا ہے خوشی کیا ہے زندگی
پی لے مزے سے صرف یہ اک جام ہی تو ہے

کوئ بھی شئے یہاں کی نہیں مستقل رہی
انجام کو یہ پہونچے گے آلام ہی تو ہے

مہنگا یہ عشق ہے بھی تو لے لیجیے جناب
بڑھتا کبھی ہے گھٹتا کبھی دام ہی تو ہے

رنج و الم ہے درد ہے اس کے سوا ہے کیا
ہجر و فراق یاس بھی احرام ہی تو ہے

تلوے شکیبؔ چاٹ کے اغیار کے کبھی
گر ہو گیا بھی نام تو بس نام ہی تو ہے

 شکیبؔ کلگانوی



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...