فرصت میں مجھ سے ملنا بھی اک کام ہی تو ہے
جلدی نہ کر تو جانے کی بس شام ہی تو ہے
ڈر ڈر کے جینا چھوڑ یہاں لوگ ہیں عجیب
بدنام ہے تو کیا ہوا بدنام ہی تو ہے
کیا رنج و غم ہے کیا ہے خوشی کیا ہے زندگی
پی لے مزے سے صرف یہ اک جام ہی تو ہے
کوئ بھی شئے یہاں کی نہیں مستقل رہی
انجام کو یہ پہونچے گے آلام ہی تو ہے
مہنگا یہ عشق ہے بھی تو لے لیجیے جناب
بڑھتا کبھی ہے گھٹتا کبھی دام ہی تو ہے
رنج و الم ہے درد ہے اس کے سوا ہے کیا
ہجر و فراق یاس بھی احرام ہی تو ہے
تلوے شکیبؔ چاٹ کے اغیار کے کبھی
گر ہو گیا بھی نام تو بس نام ہی تو ہے
No comments:
Post a Comment