Urdu Deccan

Tuesday, November 22, 2022

شباب کیرانوی

یوم وفات 05 نومبر 1982

اللہ تری شان، یہ اپنوں کی ادا ہے
محفل میں ہمیں دیکھ کے منہ پھیر لیا ہے

تو مجھ کو مٹانے کی قسم کھا تو رہا ہے
اس کو نہ مگر بھول کہ میرا بھی خدا ہے

مرنا ہی مقدر ہے تو جینے کی سزا کیوں
کس جرم کی انسان سزا کاٹ رہا ہے

ہر چند کہ اک قصۂ ماضی ہے تری یاد
سینے میں مگر آج بھی کانٹا سا چبھا ہے

جینے کی ہے تاکید ہمیں زہر پلا کر
ظالم یہ سمجھتا ہے، وہی جیسے خدا ہے

انسان کو شیطان بھی اب سجدہ کرے گا
اس دور کا انسان تو شعلوں سے بنا ہے

تعمیر کیا شیش محل نعش پہ میری
شامل تری خوشیوں میں مرا خونِ وفا ہے

کیا خوب ملا ہم کو صلہ اپنی وفا کا
ہر روز نیا ایک ستم ہم پہ ہوا ہے

انسان خدا بننے کی کوشش میں ہے مصروف
لیکن یہ تماشا بھی خدا دیکھ رہا ہے

نازاں ہے شبابؔ اپنے مقدر پہ ازل سے
اللہ سے جو مانگ لیا اُس نے دیا ہے

شباب کیرانوی



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...