کوئی صورت کتاب سے نکلے
یاد سوکھے گلاب سے نکلے
میری آنکھیں ہیں منتظر اب بھی
کب وہ چہرہ نقاب سے نکلے
اے شب ماہ ٹوٹتا ہے بدن
درد شاید شراب سے نکلے
چاند اترا تھا شب کو آنگن میں
نیند ٹوٹے تو خواب سے نکلے
وہ مری پیاس کو بجھا دے گا
ایک قطرہ جو آب سے نکلے
No comments:
Post a Comment