ہم ترے وصل کی ہر بات بتانے سے رہے
پر رقیبوں سے ترے بھید چھپانے سے رہے
کیسا قصہ تھا کہ سنتے ہی اسے نیند آئی
وہ جو سویا تو پھر ہم اس کو جگانے سے رہے
ہم نبھائیں تو بھلا کس طرح دنیا داری
دل کسی سے تو کہیں ہاتھ ملانے سے رہے
رات کٹتی نہیں اور قصہء شب ختم ہوا
چلئے کچھ روز یہ سورج بھی ٹھکانے سے رہے
مشکلوں میں اسے دیتے جو صدائیں دل سے
غیر ممکن ہے وہ بندوں کو بچانے سے رہے
No comments:
Post a Comment