کتنی مشکل ہے کہ مشکل کی طرف جانا ہے
خود سے چل کر مجھے قاتل کی طرف جانا ہے
دل یہ کہتا ہے کہ گرداب میں لے چل کشتی
ذہن کہتا ہے کہ ساحل کی طرف جانا ہے
راہ دشوار ہے تو عزم سلامت ہے مرا
مجھ کو ہر حال میں منزل کی طرف جانا ہے
مجھ سے دیکھا نہیں جائے گا تڑپنا جس کا
کیا ستم ہے اسی بسمل کی طرف جانا ہے
بڑھتی جاتی ہے مسلسل ہی یہ وحشت دل کی
کیا مجھے طوق و سلاسل کی طرف جانا ہے
راہ بر ہوگا نہ رستے میں لٹیرے ہوں گے
لے کے اعمال ہی منزل کی طرف جانا ہے
منزل کرب و بلا اس سے ہے آگے احسنؔ
لوٹ جائے جسے باطل کی طرف جانا ہے
No comments:
Post a Comment