ایک خواہش تھی کوئی خواب معطر جاگے
میری بستی میں تو ہر لمحہ ستم گر جاگے
تم نے پایا ہے اسے گزرا حوالہ دے کر
اب نہ آنکھوں میں تمہاری یہ تکبر جاگے
کیا پتہ تم کو دعاؤں کا ثمر مل جائے
تم قدم ریت پہ رکھ دو تو سمندر جاگے
موسمِ ہجر نے آنے کو کہا ہے اظہر
کیا خبر رات اندھیری کا مقدر جاگے

No comments:
Post a Comment