ترا حسنِ لم یزل ہے مری آرزو ہے فانی
مری زندگی ہے پل کی‘ تری عمر جاودانی
کڑی دھوپ کیا کرے گی‘ مرا جسم کیا جلے گا
میں ہوا پہ لکھ رہا ہوں تری زلف کی کہانی
مرے زخم کے لبوں پر وہی سرخیاں ہیں اب تک
مجھے ڈر ہے ڈھل نہ جایے کہیں پھول کی جوانی
یہ زمین دردؔ کیا دے ہمیں شانتی کے پودے
کہیں حادثوں کا میلہ‘ کہیں خون کی روانی
رفیق درد
No comments:
Post a Comment